کب تک تو اونچی آواز میں بولے گا
تیری خاطر کون دریچہ کھولے گا
اپنے آنسو اپنی آنکھ میں رہنے دے
ریت پہ کب تک ہیرے موتی رولے گا
آؤ شہر کی روشنیاں ہی دیکھ آئیں
کون ہماری خالی جیب ٹٹولے گا
لاکھ میرے ہونٹوں پر چُپ کی موہریں ہوں
میرے اندر کا فنکار تو بولے گا
دیکھ وہ اپنی میٹھی میٹھی باتوں سے
اپنا سارا زہر تجھ ہی میں گھولے گا
اے سوداگر چاہت کی جاگیروں کے
کس میزان میں تو اس جنس کو تولے گا
محسن اس کی نرم طبیعت کہتی ہے
پل دو پل وہ میرے ساتھ بھی ہولے گا
محسن نقوی
تیری خاطر کون دریچہ کھولے گا
اپنے آنسو اپنی آنکھ میں رہنے دے
ریت پہ کب تک ہیرے موتی رولے گا
آؤ شہر کی روشنیاں ہی دیکھ آئیں
کون ہماری خالی جیب ٹٹولے گا
لاکھ میرے ہونٹوں پر چُپ کی موہریں ہوں
میرے اندر کا فنکار تو بولے گا
دیکھ وہ اپنی میٹھی میٹھی باتوں سے
اپنا سارا زہر تجھ ہی میں گھولے گا
اے سوداگر چاہت کی جاگیروں کے
کس میزان میں تو اس جنس کو تولے گا
محسن اس کی نرم طبیعت کہتی ہے
پل دو پل وہ میرے ساتھ بھی ہولے گا
محسن نقوی
Comments
Post a Comment