میں بھی کس خواب سے امید لگا بیٹھا تھا
آپ سے پہلے بھی کچھ لوگ یہاں آئے تھے
میں جنہیں اپنے دل میں بسا بیٹھا تھا
وہ اچانک ہی اندھیروں سے اِدھر آ نکلا
روشنی تیز تھی، بینائی گنوا بیٹھا تھا
کچھ تو لہروں نے پریشن کیا تھا دل کو
اور کچھ میں بھی سمندر سے خفا بیٹھا تھا
اس کے بندوں کی صدیں تو کوئی کیا سنتا
ایسا عالم تھا کے خاموش خدا بیٹھا تھا
Comments
Post a Comment